EN हिंदी
سایا شیاری | شیح شیری

سایا

25 شیر

رشتے ناطے ٹوٹے پھوٹے لگے ہیں
جب بھی اپنا سایہ ساتھ نہیں ہوتا

حنیف ترین




اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے

حمایت علی شاعرؔ




روشنی میں اپنی شخصیت پہ جب بھی سوچنا
اپنے قد کو اپنے سائے سے بھی کم تر دیکھنا

حمایت علی شاعرؔ




پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

کیفی اعظمی




دھوپ سائے کی طرح پھیل گئی
ان درختوں کی دعا لینے سے

کاشف حسین غائر




زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی
سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا

کاشف حسین غائر




وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے
دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا

خالدہ عظمی