آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا
راستہ خاک اڑانے سے کھلا
زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی
سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا
ایسے کھلتا تھا کہاں رنگ جہاں
تیری تصویر بنانے سے کھلا
بات کیا بات بنانے سے بنی
حال کیا حال سنانے سے کھلا
کہیں آتا تھا یہاں سناٹا
یہ تو رستہ ترے جانے سے کھلا
رات کرتے ہیں ستارے کیسے
رات بھر نیند نہ آنے سے کھلا
غزل
آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا
کاشف حسین غائر