آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا
درد کا رشتہ اپنی آن نہیں کھوتا
بستی کے حساس دلوں کو چبھتا ہے
سناٹا جب ساری رات نہیں ہوتا
من نگری میں دھوم دھڑکا رہتا ہے
میرا میں جب میرے ساتھ نہیں ہوتا
بن جاتے ہیں لمحے بھی کتنے سنگین
وقت کبھی جب اپنا بوجھ نہیں ڈھوتا
رشتے ناطے ٹوٹے پھوٹے لگے ہیں
جب بھی اپنا سایہ ساتھ نہیں ہوتا
دل کو حنیفؔ ادھار نہیں ملتا جب تک
آنکھوں کا پتھریلا درد نہیں روتا
غزل
آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا
حنیف ترین