EN हिंदी
آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا | شیح شیری
aankhon par palkon ka bojh nahin hota

غزل

آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا

حنیف ترین

;

آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا
درد کا رشتہ اپنی آن نہیں کھوتا

بستی کے حساس دلوں کو چبھتا ہے
سناٹا جب ساری رات نہیں ہوتا

من نگری میں دھوم دھڑکا رہتا ہے
میرا میں جب میرے ساتھ نہیں ہوتا

بن جاتے ہیں لمحے بھی کتنے سنگین
وقت کبھی جب اپنا بوجھ نہیں ڈھوتا

رشتے ناطے ٹوٹے پھوٹے لگے ہیں
جب بھی اپنا سایہ ساتھ نہیں ہوتا

دل کو حنیفؔ ادھار نہیں ملتا جب تک
آنکھوں کا پتھریلا درد نہیں روتا