شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا
بانیٔ جشن بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں
کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا
بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی
سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا
اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے
ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہوگا
غزل
شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
کیفی اعظمی