EN हिंदी
ساقی شیاری | شیح شیری

ساقی

22 شیر

ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

as yet the night does linger on do not remove your veil
lest your besotten follower re-gains stability

انور مرزاپوری




شراب بند ہو ساقی کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں

اسد ملتانی




اثر نہ پوچھیے ساقی کی مست آنکھوں کا
یہ دیکھیے کہ کوئی ہوشیار باقی ہے

بیتاب عظیم آبادی




روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے

داغؔ دہلوی




تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخیٔ مے کو تیز تر کر دے

فیض احمد فیض




ساقی نے نگاہوں سے پلا دی ہے غضب کی
رندان ازل دیکھیے کب ہوش میں آئیں

فگار اناوی




آتی جاتی ہے جا بہ جا بدلی
ساقیا جلد آ ہوا بدلی

امام بخش ناسخ