تم چپ رہے پیام محبت یہی تو ہے
آنکھیں جھکیں نظر کی قیامت یہی تو ہے
محفل میں لوگ چونک پڑے میرے نام پر
تم مسکرا دئے مری قیمت یہی تو ہے
تم پوچھتے ہو تم نے شکایت بھی کی کبھی
سچ پوچھئے تو مجھ کو شکایت یہی تو ہے
وعدے تھے بے شمار مگر اے مزاج یار
ہم یاد کیا دلائیں نزاکت یہی تو ہے
میرے طلب کی حد ہے نہ تیرے عطا کی حد
مجھ کو ترے کرم کی ندامت یہی تو ہے
غزل
تم چپ رہے پیام محبت یہی تو ہے
ہاشم رضا جلالپوری