کبھی زمیں پہ کبھی آسماں پہ چھائے جا
اجاڑنے کے لیے بستیاں بسائے جا
خضر کا ساتھ دیے جا قدم بڑھائے جا
فریب کھائے ہوئے کا فریب کھائے جا
تری نظر میں ستارے ہیں اے مرے پیارے
اڑائے جا تہ افلاک خاک اڑائے جا
نہیں عتاب زمانہ خطاب کے قابل
ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا
اناڑیوں سے تجھے کھیلنا پڑا اے دوست
سجھا سجھا کے نئی چال مات کھائے جا
شراب خم سے دیے جا نشہ تبسم سے
کبھی نظر سے کبھی جام سے پلائے جا
غزل
کبھی زمیں پہ کبھی آسماں پہ چھائے جا
حفیظ جالندھری