ختم ہر اچھا برا ہو جائے گا
ایک دن سب کچھ فنا ہو جائے گا
کیا پتا تھا دیکھنا اس کی طرف
حادثا اتنا بڑا ہو جائے گا
مدتوں سے بند دروازہ کوئی
دستکیں دینے سے وا ہو جائے گا
ہے ابھی تک اس کے آنے کا یقین
جیسے کوئی معجزہ ہو جائے گا
مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے
اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا
کاش ہو جاؤ مرے ہمراہ تم
ورنہ کوئی دوسرا ہو جائے گا
کل کا وعدہ اور اس بحران میں؟
جانے کل دنیا میں کیا ہو جائے گا
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
ظلم جب حد سے سوا ہو جائے گا
آپ کا کچھ بھی نہ جائے گا شعورؔ
ہم غریبوں کا بھلا ہو جائے گا
غزل
ختم ہر اچھا برا ہو جائے گا
انور شعور