آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے
حفیظ جالندھری
خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
حیدر علی جعفری
اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ
مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں
عمران عامی
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے
جمیلؔ مظہری
انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی
جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں
جمیلؔ مظہری
میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن
صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے
مجروح سلطانپوری
دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں
خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے
منموہن تلخ