EN हिंदी
زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں | شیح شیری
zaKHm ab tak wahi sine mein liye phirta hun

غزل

زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں

عمران عامی

;

زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں
کوفے والوں کو مدینے میں لیے پھرتا ہوں

جانے کب کس کی ضرورت مجھے پڑ جائے کہاں
آگ اور خاک سفینے میں لیے پھرتا ہوں

ریت کی طرح پھسلتے ہیں مری آنکھوں سے
خواب ایسے بھی خزینے میں لیے پھرتا ہوں

ایک ناکام محبت مرا سرمایہ ہے
اور کیا خاک دفینے میں لیے پھرتا ہوں

دل پہ لکھا ہے کسی اور پری زاد کا نام
نقش اک اور نگینے میں لیے پھرتا ہوں

اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ
مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں