زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں
کوفے والوں کو مدینے میں لیے پھرتا ہوں
جانے کب کس کی ضرورت مجھے پڑ جائے کہاں
آگ اور خاک سفینے میں لیے پھرتا ہوں
ریت کی طرح پھسلتے ہیں مری آنکھوں سے
خواب ایسے بھی خزینے میں لیے پھرتا ہوں
ایک ناکام محبت مرا سرمایہ ہے
اور کیا خاک دفینے میں لیے پھرتا ہوں
دل پہ لکھا ہے کسی اور پری زاد کا نام
نقش اک اور نگینے میں لیے پھرتا ہوں
اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ
مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں
غزل
زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں
عمران عامی