ہوتا فن کار جدید اور نہ شاعر ہوتا
لغو بے بحر خیالات کا مظہر ہوتا
اور بڑھ جاتی جو ابہام کی ندرت مجھ میں
عہد نو کے کسی فرقے کا پیمبر ہوتا
کچھ تو ملتا مجھے دشنام طرازی ہی سہی
خوب ہوتا جو میں دشمن کے برابر ہوتا
کاہے کو دشت میں چبھنے کے لیے رہ جاتا
پھول ہوتا کسی گلشن کا گل تر ہوتا
مجھ پہ بھی تیشۂ الفت کی عنایت ہوتی
کاش کے میں بھی کسی کوہ کا پتھر ہوتا
یوں تراشے ہیں صنم کفر کے اس دنیا نے
بت شکن ہوتا جو اس دور میں آذرؔ ہوتا
کھینچ دیتا میں زمانے پہ محبت کے نقوش
میرے قبضے میں اگر خامۂ شہ پر ہوتا
اپنی خلیق کا مفہوم سمجھ پاتا اگر
دائرہ ہوتا جہاں اور میں محور ہوتا
لوگ مجھ کو بھی شہید غم دوراں کہتے
نیزۂ وقت پہ گویا جو مرا سر ہوتا
دشت کی آب و ہوا نے دیا کانٹوں کا لباس
میں بہاروں میں جو پلتا گل احمر ہوتا
خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں
نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا
تشنہ لب کوئی بھی دنیا میں نہیں رہ پاتا
میری آنکھوں کے جو قبضے میں سمندر ہوتا
غزل
ہوتا فن کار جدید اور نہ شاعر ہوتا
حیدر علی جعفری