EN हिंदी
مزار شیاری | شیح شیری

مزار

30 شیر

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

منور رانا




فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

منور رانا




سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

منور رانا




اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں

نفس انبالوی




پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا
چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی

ناظر صدیقی




دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے

نشور واحدی




تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں

عبید الرحمان