EN हिंदी
مزار شیاری | شیح شیری

مزار

30 شیر

بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے

رضا مورانوی




زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا
بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا

رضا مورانوی




تیری تابش سے روشن ہیں گل بھی اور ویرانے بھی
کیا تو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند؟

شبنم رومانی




پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی
سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے

شارب مورانوی




سروں پہ اوڑھ کے مزدور دھوپ کی چادر
خود اپنے سر پہ اسے سائباں سمجھنے لگے

شارب مورانوی




آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں

تنویر سپرا




اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

تنویر سپرا