یہ کہنا تھا جو دنیا کہہ رہی ہے
یہ گنگا کب سے الٹی بہہ رہی ہے
خبر ہے خواب ٹوٹے گا یقیناً
مگر اک فاختہ دکھ سہہ رہی ہے
لگی تھی اس کی بنیادوں میں دیمک
سو اب دل کی عمارت ڈھ رہی ہے
کہیں یہ خشک ہو جائے نہ ساتھی
مرے دل میں جو ندیا بہہ رہی ہے
ستارہ بند مٹھی میں ملے گا
مری تقدیر مجھ سے کہہ رہی ہے
مرے دل کے اکیلے گھر میں راحتؔ
اداسی جانے کب سے رہ رہی ہے
غزل
یہ کہنا تھا جو دنیا کہہ رہی ہے
حمیرا راحتؔ