EN हिंदी
منزیل شیاری | شیح شیری

منزیل

19 شیر

وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا

افتخار عارف




میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری




اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا

ناصر کاظمی




منزل ملی مراد ملی مدعا ملا
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا

destination and desire and my ends attained
i got everything when your footprints I obtained

سیماب اکبرآبادی




مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل
سر راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پکارا

I then came to believe it was, my goal, my destiny
When someone in my path called out to me repeatedly

شکیل بدایونی