اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
عرفان غم ہوا مجھے اپنا پتا ملا
جب دور تک نہ کوئی فقیر آشنا ملا
تیرا نیاز مند ترے در سے جا ملا
منزل ملی مراد ملی مدعا ملا
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا
خود بین و خود شناس ملا خود نما ملا
انساں کے بھیس میں مجھے اکثر خدا ملا
سرگشتۂ جمال کی حیرانیاں نہ پوچھ
ہر ذرے کے حجاب میں اک آئنہ ملا
پایا تجھے حدود تعین سے ماورا
منزل سے کچھ نکل کے ترا راستہ ملا
کیوں یہ خدا کے ڈھونڈنے والے ہیں نامراد
گزرا میں جب حدود خودی سے خدا ملا
یہ ایک ہی تو نعمت انساں نواز تھی
دل مجھ کو مل گیا تو خدائی کو کیا ملا
یا زخم دل کو چھیل کے سینے سے پھینک دے
یا اعتراف کر کہ نشان وفا ملا
سیمابؔ کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کم بخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا
غزل
اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
سیماب اکبرآبادی