گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
لہو دینے لگی ہے چشم خوں بستہ سو اس بار
بھری آنکھوں سے خوابوں کو رہا کرنا پڑے گا
مبادا قصۂ اہل جنوں نا گفتہ رہ جائے
نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا
درختوں پر ثمر آنے سے پہلے آئے تھے پھول
پھلوں کے بعد کیا ہوگا پتہ کرنا پڑے گا
گنوا بیٹھے تری خاطر ہم اپنے مہر و ماہتاب
بتا اب اے زمانے اور کیا کرنا پڑے گا
غزل
گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
افتخار عارف