کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں
tell all my desires to go find another place
in this scarred heart alas there isn't enough space
بہادر شاہ ظفر
میکدے کو جا کے دیکھ آؤں یہ حسرت دل میں ہے
زاہد اس مٹی کی الفت میری آب و گل میں ہے
حبیب موسوی
کچھ نظر آتا نہیں اس کے تصور کے سوا
حسرت دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا
save visions of her, nothing comes to mind
the longing for her sight surely turned me blind
حیدر علی آتش
خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے
عمران الحق چوہان
ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی
میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی
اقبال ساجد
خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا
اسماعیلؔ میرٹھی
حسرتوں کا ہو گیا ہے اس قدر دل میں ہجوم
سانس رستہ ڈھونڈھتی ہے آنے جانے کے لیے
جگر جالندھری