EN हिंदी
غار شیاری | شیح شیری

غار

41 شیر

ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے
خود کو گھر سے نکال رکھا ہے

اظہر ادیب




درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے

بخش لائلپوری




کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے
کسی کی آنکھ میں رہ کر سنور گئے ہوتے

بشیر بدر




میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ
دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے

غلام حسین ساجد




گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف




مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

افتخار عارف




تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف