کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
راجیندر منچندا بانی
اک گھر بنا کے کتنے جھمیلوں میں پھنس گئے
کتنا سکون بے سر و سامانیوں میں تھا
ریاض مجید
اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
ساقی فاروقی
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
شہریار
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
شہپر رسول
وہاں ہمارا کوئی منتظر نہیں پھر بھی
ہمیں نہ روک کہ گھر جانا چاہتے ہیں ہم
والی آسی
ٹیگز:
| غار |
| 2 لائنیں شیری |