رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
اور موسم کے تغیر سے بھی ڈر لگتا ہے
درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
ایک ساحل ہی تھا گرداب شناسا پہلے
اب تو ہر دل کے سفینے میں بھنور لگتا ہے
بزم شاہی میں وہی لوگ سرافراز ہوئے
جن کے کندھوں پہ ہمیں موم کا سر لگتا ہے
کھا لیا ہے تو اسے دوست اگلتے کیوں ہو
ایسے پیڑوں پہ تو ایسا ہی ثمر لگتا ہے
اجنبیت کا وہ عالم ہے کہ ہر آن یہاں
اپنا گھر بھی ہمیں اغیار کا گھر لگتا ہے
شب کی سازش نے اجالوں کا گلا گھونٹ دیا
ظلمت آباد سا اب نور سحر لگتا ہے
منزل سخت سے ہم یوں تو نکل آئے ہیں
اور جو باقی ہے قیامت کا سفر لگتا ہے
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
باد خوش رنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
غزل
رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
بخش لائلپوری