چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے
مطلب یہ ہے کہ رکھ دے کلیجہ نکال کے
واعظ سے بحث بادہ و پیمانہ کیا کروں
کچھ لوگ رہ گئے ہیں پرانے خیال کے
سو داغ جن کے لائے ہیں زیر مزار ہم
احساں جتا رہے ہیں وہ دو پھول ڈال کے
پھر ڈھونڈھتا ہے دل خلش خار آرزو
پچھتا رہا ہوں دل سے یہ کانٹا نکال کے
یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں
غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے

غزل
چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے
مبارک عظیم آبادی