EN हिंदी
چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے | شیح شیری
chitwan jo qahr ki hai to tewar jalal ke

غزل

چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے

مبارک عظیم آبادی

;

چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے
مطلب یہ ہے کہ رکھ دے کلیجہ نکال کے

واعظ سے بحث بادہ و پیمانہ کیا کروں
کچھ لوگ رہ گئے ہیں پرانے خیال کے

سو داغ جن کے لائے ہیں زیر مزار ہم
احساں جتا رہے ہیں وہ دو پھول ڈال کے

پھر ڈھونڈھتا ہے دل خلش خار آرزو
پچھتا رہا ہوں دل سے یہ کانٹا نکال کے

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں
غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے