نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
حیدر علی آتش
نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا
حیدر علی آتش
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
حیدر علی آتش
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
the time of his death, man cannot foresee
uncertain of the morrow yet, plans for a century
حیرت الہ آبادی
نہ تو کچھ فکر میں حاصل ہے نہ تدبیر میں ہے
وہی ہوتا ہے جو انسان کی تقدیر میں ہے
there is naught from worrying, nor from planning gained
for everything that happens is by fate ordained
حیرت الہ آبادی
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
حکیم ناصر
پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
حکیم ناصر