EN हिंदी
مشہور شیاری | شیح شیری

مشہور

248 شیر

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

حیدر علی آتش




نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا

حیدر علی آتش




سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

حیدر علی آتش




آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

the time of his death, man cannot foresee
uncertain of the morrow yet, plans for a century

حیرت الہ آبادی




نہ تو کچھ فکر میں حاصل ہے نہ تدبیر میں ہے
وہی ہوتا ہے جو انسان کی تقدیر میں ہے

there is naught from worrying, nor from planning gained
for everything that happens is by fate ordained

حیرت الہ آبادی




جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

حکیم ناصر




پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

حکیم ناصر