تم انتظار کے لمحے شمار مت کرنا
دیئے جلائے نہ رکھنا سنگار مت کرنا
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
کرن سے بھی ہے زیادہ ذرا مری رفتار
نہیں ہے آنکھ سے ممکن شکار مت کرنا
تمہیں خبر ہے کہ طاقت مرا وسیلہ ہے
تم اپنے آپ کو بے اختیار مت کرنا
تمہارے ساتھ مرے مختلف مراسم ہیں
مری وفا پہ کبھی انحصار مت کرنا
تمہیں بتاؤں یہ دنیا غرض کی دنیا ہے
خلوص دل میں اگر ہے تو پیار مت کرنا
ملیں گے راہ میں عاصمؔ کو ہم سفر کئی اور
وہ آ رہا ہے مگر انتظار مت کرنا
غزل
تم انتظار کے لمحے شمار مت کرنا
عاصمؔ واسطی