کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح
ابھی تو ہوتی ہیں سرگوشیاں پس دیوار
ابھی نہ کرنا ستارے شمار میری طرح
بگولہ بن کے اڑا خواہشوں کے صحرا میں
ٹھہر گیا تو فقط تھا غبار میری طرح
انہیں کے سایوں میں اب سر جھکا کے چلتا ہے
اگا گیا تھا جو سرو و خیار میری طرح
غزل
کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
فرید پربتی