EN हिंदी
بوافا شیاری | شیح شیری

بوافا

27 شیر

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز
گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو

خواجہ میر دردؔ




دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں

مہتاب عالم




بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا

I sacrifice my heart upon your infidelity
were you faithful it would be a calamity

میر تقی میر




ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

قتیل شفائی




میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

قتیل شفائی




گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

محمد رفیع سودا