EN हिंदी
باہوڈی شیاری | شیح شیری

باہوڈی

40 شیر

بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا

بہادر شاہ ظفر




چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے
میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ

بقا اللہ بقاؔ




اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو

فانی بدایونی




اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے

the formality of you and I should in wine be drowned
meaning that these barriers of sobriety be downed

فرحت شہزاد




جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے

فراق گورکھپوری




اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز




عمر جو بے خودی میں گزری ہے
بس وہی آگہی میں گزری ہے

گلزار دہلوی