جاں بلب لمحۂ تسکیں مری قسمت ہے شمیمؔ
بے خودی پھر مجھے دیوانہ بناتی کیوں ہے
سخاوت شمیم
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
شہاب جعفری
کیا ہے جب سیں عمل بے خودی کے حاکم نے
خرد نگر کی رعیت ہوئی ہے رو بگریز
سراج اورنگ آبادی
نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں
نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ
سراج اورنگ آبادی
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
سراج اورنگ آبادی
ٹیگز:
| باہوڈی |
| 2 لائنیں شیری |