عمر جو بے خودی میں گزری ہے
بس وہی آگہی میں گزری ہے
کوئی موج نسیم سے پوچھے
کیسی آوارگی میں گزری ہے
ان کی بھی رہ سکی نہ دارآئی
جن کی اسکندری میں گزری ہے
آسرا ان کی رہبری ٹھہری
جن کی خود رہزنی میں گزری ہے
آس کے جگنوؤ سدا کس کی
زندگی روشنی میں گزری ہے
ہم نشینی پہ فخر کر ناداں
صحبت آدمی میں گزری ہے
یوں تو شاعر بہت سے گزرے ہیں
اپنی بھی شاعری میں گزری ہے
میر کے بعد غالب و اقبال
اک صدا، اک صدی میں گزری ہے
غزل
عمر جو بے خودی میں گزری ہے
گلزار دہلوی