EN हिंदी
آنسو شیاری | شیح شیری

آنسو

85 شیر

آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا

عباس تابش




آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے

ادا جعفری




جوکھم اے مردم دیدہ ہے سمجھ کے رونا
ڈوب بھی جاتے ہیں دریا میں نہانے والے

آغا حجو شرف




بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا

احمد مشتاق




روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشم تر میں ہے
کچھ نہیں بگڑا ابھی تک گھر کی دولت گھر میں ہے

احسن مارہروی




وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے

اختر انصاری




اشک جب دیدۂ تر سے نکلا
ایک کانٹا سا جگر سے نکلا

اختر امام رضوی