EN हिंदी
اشک جب دیدۂ تر سے نکلا | شیح شیری
ashk jab dida-e-tar se nikla

غزل

اشک جب دیدۂ تر سے نکلا

اختر امام رضوی

;

اشک جب دیدۂ تر سے نکلا
ایک کانٹا سا جگر سے نکلا

پھر نہ میں رات گئے تک لوٹا
ڈوبتی شام جو گھر سے نکلا

ایک میت کی طرح لگتا تھا
چاند جب قید سحر سے نکلا

مجھ کو منزل بھی نہ پہچان سکی
میں کہ جب گرد سفر سے نکلا

ہائے دنیا نے اسے اشک کہا
خون جو زخم نظر سے نکلا

اک اماوس کا نصیبہ ہوں میں
آج یہ چاند کدھر سے نکلا

جب اڑا جانب منزل اخترؔ
ایک شعلہ مرے پر سے نکلا