EN हिंदी
ویسے ہی خیال آ گیا ہے | شیح شیری
waise hi KHayal aa gaya hai

غزل

ویسے ہی خیال آ گیا ہے

ادا جعفری

;

ویسے ہی خیال آ گیا ہے
یا دل میں ملال آ گیا ہے

آنسو جو رکا وہ کشت جاں میں
بارش کی مثال آ گیا ہے

غم کو نہ زیاں کہو کہ دل میں
اک صاحب حال آ گیا ہے

جگنو ہی سہی فصیل شب میں
آئینہ خصال آ گیا ہے

آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے

مدت ہوئی کچھ نہ دیکھنے کا
آنکھوں کو کمال آ گیا ہے

میں کتنے حصار توڑ آئی
جینا تھا محال آ گیا ہے