تاباںؔ زبس ہوائے جنوں سر میں ہے مرے
اب میں ہوں اور دشت ہے یہ سر ہے اور پہاڑ
تاباں عبد الحی
تک رہا ہے یہ کوئی سونے کی چڑیا آ پھنسے
دام سبحہ لے کے زاہد گریۂ مسکیں کی طرح
تاباں عبد الحی
تری بات لاوے جو پیغام بر
وہی ہے مرے حق میں روح الامیں
تاباں عبد الحی
تم اس قدر جو نڈر ہو کے ظلم کرتے ہو
بتاں ہمارا تمہارا کوئی خدا بھی ہے
تاباں عبد الحی
تم اس قدر جو نڈر ہو کے ظلم کرتے ہو
بتاں ہمارا تمہارا کوئی خدا بھی ہے
تاباں عبد الحی
تو بھلی بات سے ہی میری خفا ہوتا ہے
آہ کیا چاہنا ایسا ہی برا ہوتا ہے
تاباں عبد الحی
تو کون ہے اے واعظ جو مجھ کو ڈراتا ہے
میں کی بھی ہیں تو کی ہیں اللہ کی تقصیریں
تاباں عبد الحی