تو بھلی بات سے ہی میری خفا ہوتا ہے
آہ کیا چاہنا ایسا ہی برا ہوتا ہے
تیرے ابرو سے مرا دل نہ چھٹے گا ہرگز
گوشت ناخن سے بھلا کوئی جدا ہوتا ہے
میں سمجھتا ہوں تجھے خوب طرح اے عیار
تیرے اس مکر کے اخلاص سے کیا ہوتا ہے
ہے کف خاک مری بسکہ تب عشق سے گرم
پانو واں جس کا پڑے آبلہ پا ہوتا ہے
دل مرا ہاتھ سے جاتا ہے کروں کیا تدبیر
یار مدت کا مرا ہائے جدا ہوتا ہے
راہبر منزل مقصود کو درکار نہیں
شوق دل اپنا ہی یاں راہ نما ہوتا ہے
غیر ہرجائی مرا یار لیے جاتا ہے
مجھ پہ تاباںؔ یہ ستم آج بڑا ہوتا ہے
غزل
تو بھلی بات سے ہی میری خفا ہوتا ہے
تاباں عبد الحی