ہمارے میکدے میں ہیں جو کچھ کی نیتیں ظاہر
کب اس خوبی سے اے زاہد ترا بیت حرم ہوگا
تاباں عبد الحی
حرم کو چھوڑ رہوں کیوں نہ بت کدے میں شیخ
کہ یاں ہر ایک کو ہے مرتبہ خدائی کا
تاباں عبد الحی
ہوا بھی عشق کی لگنے نہ دیتا میں اسے ہرگز
اگر اس دل پہ ہوتا ہائے کچھ بھی اختیار اپنا
تاباں عبد الحی
ہجر میں اس بت کافر کے تڑپتے ہیں پڑے
اہل زنار کہیں صاحب اسلام کہیں
تاباں عبد الحی
ہو روح کے تئیں جسم سے کس طرح محبت
طائر کو قفس سے بھی کہیں ہو ہے محبت
تاباں عبد الحی
ہو روح کے تئیں جسم سے کس طرح محبت
طائر کو قفس سے بھی کہیں ہو ہے محبت
تاباں عبد الحی
ایمان و دیں سے تاباںؔ کچھ کام نہیں ہے ہم کو
ساقی ہو اور مے ہو دنیا ہو اور ہم ہوں
تاباں عبد الحی