مرہم ترے وصال کا لازم ہے اے صنم
دل میں لگی ہے ہجر کی برچھی کی ہول آج
سراج اورنگ آبادی
مرہم ترے وصال کا لازم ہے اے صنم
دل میں لگی ہے ہجر کی برچھی کی ہول آج
سراج اورنگ آبادی
مسجد ابرو میں تیری مردمک ہے جیوں امام
موئے مژگاں مقتدی ہو مل کے کرتے ہیں نماز
سراج اورنگ آبادی
مسجد میں تجھ بھنووں کی اے قبلۂ دل و جاں
پلکیں ہیں مقتدی اور پتلی امام گویا
سراج اورنگ آبادی
مسجد میں تجھ بھنووں کی اے قبلۂ دل و جاں
پلکیں ہیں مقتدی اور پتلی امام گویا
سراج اورنگ آبادی
مسجد وحشت میں پڑھتا ہے تراویح جنوں
مصحف حسن پری رخسار جس کوں یاد ہے
سراج اورنگ آبادی
مرے سیں دور کیا چاہتے ہیں سایۂ عشق
جتے ہیں شہر کے سیانے ہوئے ہیں دیوانے
سراج اورنگ آبادی