ٹٹولو پرکھ لو چلو آزما لو
خدا کی قسم با خدا آدمی ہوں
شمیم عباس
یاد آتی ہے اچھی سی کوئی بات سر شام
پھر صبح تلک سوچتے رہتے ہیں وہ کیا تھی
شمیم عباس
دور تک پھیلا ہوا ہے ایک انجانا سا خوف
اس سے پہلے یہ سمندر اس قدر برہم نہ تھا
شمیم فاروقی
حسین رت ہے مگر کون گھر سے نکلے گا
ہر اک بدن میں سمایا ہوا ہے ڈر اب کے
شمیم فاروقی
بند کر کے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ
شمیم حنفی
بند کر کے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ
شمیم حنفی
میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو
خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے
شمیم حنفی