EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ٹٹولو پرکھ لو چلو آزما لو
خدا کی قسم با خدا آدمی ہوں

شمیم عباس




یاد آتی ہے اچھی سی کوئی بات سر شام
پھر صبح تلک سوچتے رہتے ہیں وہ کیا تھی

شمیم عباس




دور تک پھیلا ہوا ہے ایک انجانا سا خوف
اس سے پہلے یہ سمندر اس قدر برہم نہ تھا

شمیم فاروقی




حسین رت ہے مگر کون گھر سے نکلے گا
ہر اک بدن میں سمایا ہوا ہے ڈر اب کے

شمیم فاروقی




بند کر کے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ

شمیم حنفی




بند کر کے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ

شمیم حنفی




میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو
خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے

شمیم حنفی