EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

شکیب جلالی




وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

شکیب جلالی




وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

شکیب جلالی




وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر
آج کے دوست کل کے بیگانے

شکیب جلالی




وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر
آج کے دوست کل کے بیگانے

شکیب جلالی




وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں
پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

شکیب جلالی




یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

شکیب جلالی