EN हिंदी
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے | شیح شیری
jahan talak bhi ye sahra dikhai deta hai

غزل

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

شکیب جلالی

;

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انہیں تو دن کا بھی سایا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اب تو
وہ دور کوئی جزیرہ دکھائی دیتا ہے

وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں
پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے

سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قد بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے

کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے