EN हिंदी
کوئی اس دل کا حال کیا جانے | شیح شیری
koi is dil ka haal kya jaane

غزل

کوئی اس دل کا حال کیا جانے

شکیب جلالی

;

کوئی اس دل کا حال کیا جانے
ایک خواہش ہزار تہہ خانے

موت نے آج خودکشی کر لی
زیست پر کیا بنی خدا جانے

پھر ہوا کوئی بد گماں ہم سے
پھر جنم لے رہے ہیں افسانے

وقت نے یہ کہا ہے رک رک کر
آج کے دوست کل کے بیگانے

دور سے ایک چیخ ابھری تھی
بن گئے بے شمار افسانے

زیست کے شور و شر میں ڈوب گئے
وقت کو ناپنے کے پیمانے

کتنا مشکل ہے منزلوں کا حصول
کتنے آساں ہیں جال پھیلانے

راز یہ ہے کہ کوئی راز نہیں
لوگ پھر بھی مجھے نہ پہچانے