خواہشوں کی دھول سے چہرے ابھرتے ہی نہیں
ہم نے کر کے دیکھ لیں خوابوں کی تعبیریں بہت
شہزاد احمد
کس لیے وہ شہر کی دیوار سے سر پھوڑتا
قیس دیوانہ سہی اتنا بھی دیوانہ نہ تھا
شہزاد احمد
کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں
جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی
شہزاد احمد
کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں
جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی
شہزاد احمد
کوئی تو رات کو دیکھے گا جواں ہوتے ہوئے
اس بھرے شہر میں بے دار کوئی تو ہوگا
شہزاد احمد
کچھ دیکھنے کی دل میں تمنا نہیں باقی
کیا اپنی بھی طاقت سے سوا دیکھ لیا ہے
شہزاد احمد
کچھ دیکھنے کی دل میں تمنا نہیں باقی
کیا اپنی بھی طاقت سے سوا دیکھ لیا ہے
شہزاد احمد