ڈوب جاتا ہے دمکتا ہوا سورج لیکن
مہندیاں شام کے ہاتھوں میں رچا دیتا ہے
شہزاد احمد
دور سے دیکھ کے میں نے اسے پہچان لیا
اس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا کیسے ہو
شہزاد احمد
ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ
میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر
شہزاد احمد
ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ
میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر
شہزاد احمد
ایک سے منظر دیکھ دیکھ کر آنکھیں دکھنے لگتی ہیں
اس رستے پر پیڑ بہت ہیں اور ہرا کوئی بھی نہیں
شہزاد احمد
فلک سے گھورتی ہیں مجھ کو بے شمار آنکھیں
نہ چین آتا ہے جی کو نہ رات ڈھلتی ہے
شہزاد احمد
فلک سے گھورتی ہیں مجھ کو بے شمار آنکھیں
نہ چین آتا ہے جی کو نہ رات ڈھلتی ہے
شہزاد احمد