میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر
ہو کوئی بہروپ اس کا دل دھڑکتا ہے ضرور
میں اسے پہچان لیتا ہوں نشانی دیکھ کر
ادھ کھلے تنہا دریچوں کا مجھے آیا خیال
نیم وا آنکھوں کی رنگت آسمانی دیکھ کر
ابر کے ٹکڑوں نے دیواریں بنا دیں جا بجا
دھوپ سے جلتی فضا کی بے کرانی دیکھ کر
ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ
میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر
آنکھ کے بادل سے کہتا ہے کہ دنیا پر برس
دل لب و رخسار کی شعلہ فشانی دیکھ کر
کس طرف لے جائے گی سوئے ہوئے لوگوں کو رات
ڈر رہا ہوں اس کی آنکھوں میں گرانی دیکھ کر
دن وہیں پر کاٹنا ہم کو قیامت ہو گیا
آن بیٹھے تھے جہاں صبحیں سہانی دیکھ کر
دل میں جو کچھ ہے زباں کا ذائقہ بنتا نہیں
لفظ چہرہ ڈھانپ لیتے ہیں معانی دیکھ کر
دل نہ جانے کون سی گہرائیوں میں کھو گیا
بحر کی موجوں کی تحریروں کو فانی دیکھ کر
دیر سے شہزادؔ کنج عافیت میں تھے اسیر
خوش ہوا ہے دل بلائے ناگہانی دیکھ کر
غزل
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
شہزاد احمد