کس ناز سے کہتے ہیں وہ جھنجھلا کے شب وصل
تم تو ہمیں کروٹ بھی بدلنے نہیں دیتے
اکبر الہ آبادی
کچھ الہ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے
یاں دھرا کیا ہے بجز اکبر کے اور امردو کے
اکبر الہ آبادی
کچھ نہیں کار فلک حادثہ پاشی کے سوا
فلسفہ کچھ نہیں الفاظ تراشی کے سوا
اکبر الہ آبادی
کچھ طرز ستم بھی ہے کچھ انداز وفا بھی
کھلتا نہیں حال ان کی طبیعت کا ذرا بھی
اکبر الہ آبادی
کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
موت آتی ہے شب ہجر نہ نیند آتی ہے
اکبر الہ آبادی
کیا پوچھتے ہو اکبرؔ شوریدہ سر کا حال
خفیہ پولس سے پوچھ رہا ہے کمر کا حال
اکبر الہ آبادی
کیا وہ خواہش کہ جسے دل بھی سمجھتا ہو حقیر
آرزو وہ ہے جو سینہ میں رہے ناز کے ساتھ
اکبر الہ آبادی