آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے
خاطر سے تری یاد کو ٹلنے نہیں دیتے
سچ ہے کہ ہمیں دل کو سنبھلنے نہیں دیتے
کس ناز سے کہتے ہیں وہ جھنجھلا کے شب وصل
تم تو ہمیں کروٹ بھی بدلنے نہیں دیتے
پروانوں نے فانوس کو دیکھا تو یہ بولے
کیوں ہم کو جلاتے ہو کہ جلنے نہیں دیتے
حیران ہوں کس طرح کروں عرض تمنا
دشمن کو تو پہلو سے وہ ٹلنے نہیں دیتے
دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے
گرمئ محبت میں وہ ہیں آہ سے مانع
پنکھا نفس سرد کا جھلنے نہیں دیتے
غزل
آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
اکبر الہ آبادی