EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے
حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے

شاد لکھنوی




وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے
حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے

شاد لکھنوی




قیامت سے نہیں کم انتظار وصل کی لذت
خدا جانے کہیں وعدہ وفا ہوتا تو کیا ہوتا

شفق عماد پوری




فضائے شہر بڑی خوش گوار تھی لیکن
پلک جھپکتے ہی کیسا عجیب منظر تھا

شفیق اعظمی




فضائے شہر بڑی خوش گوار تھی لیکن
پلک جھپکتے ہی کیسا عجیب منظر تھا

شفیق اعظمی




آ گیا تھا ایک دن لب پر جفاؤں کا گلا
آج تک جب ان سے ملتے ہیں تو شرماتے ہیں ہم

شفیق جونپوری




فریب روشنی میں آنے والو میں نہ کہتا تھا
کہ بجلی آشیانے کی نگہباں ہو نہیں سکتی

شفیق جونپوری