طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم
شاد عظیم آبادی
طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم
شاد عظیم آبادی
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
شاد عظیم آبادی
ترا آستاں جو نہ مل سکا تری رہ گزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو کہیں سہی
شاد عظیم آبادی
ترا آستاں جو نہ مل سکا تری رہ گزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو کہیں سہی
شاد عظیم آبادی
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
شاد عظیم آبادی
چشم تر نے بہا کے جوے سرشک
موج دریا کو دھار پر مارا
شاد لکھنوی