چشم تر نے بہا کے جوے سرشک
موج دریا کو دھار پر مارا
شاد لکھنوی
ہر ایک جواہر بیش بہا چمکا تو یہ پتھر کہنے لگا
جو سنگ ترا وہ سنگ مرا تو اور نہیں میں اور نہیں
شاد لکھنوی
اس سے بہتر اور کہہ لیں گے اگر زندہ ہیں شادؔ
کھو گیا پہلا جو وہ دیوان کیا تھا کچھ نہ تھا
شاد لکھنوی
اس سے بہتر اور کہہ لیں گے اگر زندہ ہیں شادؔ
کھو گیا پہلا جو وہ دیوان کیا تھا کچھ نہ تھا
شاد لکھنوی
جب جیتے جی نہ پوچھا پوچھیں گے کیا مرے پر
مردے کی روح کو بھی گھر سے نکالتے ہیں
شاد لکھنوی
خدا کا ڈر نہ ہوتا گر بشر کو
خدا جانے یہ بندہ کیا نہ کرتا
شاد لکھنوی
مشکل میں کب کسی کا کوئی آشنا ہوا
تلوار جب گلے سے ملی سر جدا ہوا
شاد لکھنوی