EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جسم کو پڑھتے رہے وہ روح تک آئے نہیں
جونؔ کو پڑھتے رہے مجروحؔ تک آئے نہیں

سیدہ عرشیہ حق




خبر کر دے کوئی اس بے خبر کو
مری حالت بگڑتی جا رہی ہے

سیدہ عرشیہ حق




میں خود پہ ضبط کھوتی جا رہی ہوں
جدائی کیا ستم آلود شے ہے

سیدہ عرشیہ حق




سب یہاں جونؔ کے دوانے ہیں
حقؔ کہو کون تم کو چاہے گا

سیدہ عرشیہ حق




تو کیا ہوا جو جنمی تھی پردیس میں کبھی
بیٹی ہے عرشیہؔ بھی تو ہندوستان کی

سیدہ عرشیہ حق




تو کیا ہوا جو جنمی تھی پردیس میں کبھی
بیٹی ہے عرشیہؔ بھی تو ہندوستان کی

سیدہ عرشیہ حق




تم بھی آخر ہو مرد کیا جانو
ایک عورت کا درد کیا جانو

سیدہ عرشیہ حق