EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کسی نے جاں ہی لٹا دی وفاؤں کی خاطر
تم ہی بتاؤ کہ قصہ یہ کس کتاب کا ہے

سرفراز خالد




لمبی ہے بہت آج کی شب جاگنے والو
اور یاد مجھے کوئی کہانی بھی نہیں ہے

سرفراز خالد




میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت
کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے

سرفراز خالد




میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت
کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے

سرفراز خالد




میں جس کو سوچتا رہتا ہوں کیا ہے وہ آخر
مرے لبوں پہ جو رہتا ہے اس کا نام ہے کیا

سرفراز خالد




میں تو اب شہر میں ہوں اور کوئی رات گئے
چیختا رہتا ہے صحرائے بدن کے اندر

سرفراز خالد




موسم کوئی بھی ہو پہ بدلتا نہیں ہوں میں
یعنی کسی بھی سانچے میں ڈھلتا نہیں ہوں میں

سرفراز خالد