کسی نے جاں ہی لٹا دی وفاؤں کی خاطر
تم ہی بتاؤ کہ قصہ یہ کس کتاب کا ہے
سرفراز خالد
لمبی ہے بہت آج کی شب جاگنے والو
اور یاد مجھے کوئی کہانی بھی نہیں ہے
سرفراز خالد
میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت
کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے
سرفراز خالد
میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت
کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے
سرفراز خالد
میں جس کو سوچتا رہتا ہوں کیا ہے وہ آخر
مرے لبوں پہ جو رہتا ہے اس کا نام ہے کیا
سرفراز خالد
میں تو اب شہر میں ہوں اور کوئی رات گئے
چیختا رہتا ہے صحرائے بدن کے اندر
سرفراز خالد
موسم کوئی بھی ہو پہ بدلتا نہیں ہوں میں
یعنی کسی بھی سانچے میں ڈھلتا نہیں ہوں میں
سرفراز خالد